Nothing Special   »   [go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

حکم دوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
The printable version is no longer supported and may have rendering errors. Please update your browser bookmarks and please use the default browser print function instead.
حکم دوم
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 جنوری 915ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قرطبہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 اکتوبر 976ء (61 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قرطبہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سکتہ   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت قرطبہ
اندلس   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ صبح   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ہشام موید بااللہ   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عبد الرحمٰن الناصر   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
خلیفہ قرطبہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
961  – 976 
عبد الرحمٰن الناصر  
ہشام موید بااللہ  
عملی زندگی
پیشہ خلیفہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حکم دوم مستنصر باللہ اندلس کی اموی سلطنت کا نواں حکمران اور اپنے باپ عبد الرحمٰن الناصر کے بعد اندلس کا دوسرا خلیفہ (جانشین)۔ خلافت کا اعلان سنہ 316 ہجری میں کیا۔ اندلس میں اس کا عہد، سلطنت کی توسیع کا عہد شمار کیا جاتا ہے۔ حکم دوم اپنی علم دوستی اور کتابوں کے جمع کرنے میں بہت مشہور تھا، یہاں تک کہ ان کے کتبخانہ میں تقریباً چار لاکھ کتابیں تھیں جن کو اس نے بڑی محنت سے مخلتف ملکوں اور شہروں سے جمع کیا تھا۔

ولادت واحوال

حکم دوم بن عبد الرحمٰن الناصر 24 جمادی الاولی (ایک قول کے مطابق ماہ رجب) سنہ 302 ہجری میں قرطبہ میں پیدا ہوا،[2] ماں ام ولد تھی، نام مرجان تھا۔[3] اس کے باپ ناصر لدین اللہ کا عہد حکومت پچاس سالوں تک رہا۔[4] باپ نے اپنی زندگی ہی میں بہت سی اہم ذمہ داریاں سونپ دی تھی، جس کی وجہ سے پہلے سے ہی پختہ اور لائق ہو گیا تھا۔[3] باپ کی وفات کے بعد وصیت اور ولی عہدی کے مطابق سلطنت کی زمام سنبھالی اور وفات کے دوسرے دن 3 رمضان المبارک 350ھ میں بیعت لی۔ لقب "مستنصر باللہ" اختیار کیا۔[5]

وفات

قرطبہ میں حکم دوم مستنصر باللہ کی یادگار، اسے اکتوبر 1976ء میں بنایا گیا تھا

ربیع الاول 364ھ میں طبیعت ناساز ہوئی اور ربیع الثانی کے آخر تک بستر مرض پر رہے، اسی دوران سو غلاموں کو آزاد کیا اور رعایا کے قرضوں کو معاف کیا۔ اپنے بیٹے ولی عہد ہشام دوم کی بیعت کا حکم دیا، جمادی الثانی کے اوائل 365ھ میں بیعت ہوئی۔[6] مستنصر باللہ کی طبیعت مسلسل بڑھتی رہی یہاں تک کہ 3 صفر 366ھ میں وفات ہو گئی۔[7]

کارنامے

مدینہ الزہراء کے ایک کھنڈر کی جھلک، جو مستنصر کے عہد میں مکمل ہوا تھا

حکم دوم مستنصر باللہ کے اہم کارناموں میں سے جامع مسجد قرطبہ کی توسیع ہے۔[8] 354ھ میں تیسری محراب بنوائی اور اس کی تزئین و آرائش کی۔ تعمیر میں 261,537 دینار خرچ ہوئے۔ اس کے علاوہ وضو خانے، مسجد کے بغل میں صدقہ خانہ، مساکین و غربا کی تعلیم کا انتظام، مسجد کے عملہ اور واعظین کے لیے گھروں کی تعمیر اور ہندی عود، عاج، آبنوس اور صندل جیسی قیمتی لکڑیوں سے بنا منبر بنوایا، جس کی کل لاگت 35,750 دینار تھی۔[9][10]

اسی طرح کے اس کے عہد میں مدینہ الزہراء کی تعمیر مکمل ہوئی جو اس کے والد عبد الرحمٰن الناصر کے عہد میں شروع ہوئی تھی، والد کے زمانے سے ہی اس کی تعمیر کی نگرانی حکم دوم کرتے تھے، 365ھ میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔[11] 361ھ میں قرطبہ کا رومن پل کی اصلاح اور مرمت کا حکم دیا اور خود اس کی نگرانی کی۔ اسی طرح نارمان جنگ کی شکست کے بعد قرطبہ میں ایک بحری بیڑا بنانے کا حکم دیا جس میں 300 جہاز آ سکتے تھے۔[12]

حکم دوم کا عہد تعلیم و ثقافت کے عروج و ترقی کا دور تھا، عوام کی بہترین تعلیم کا انتظام کیا اس سے پہلے یورپ میں تعلیم کا ایسا رواج نہیں تھا۔ جامع قرطبہ ایک تعلیمی یونیورسٹی بھی بن گئی جس میں مختلف علوم کے حلقے لگنے لگے۔ علما کے لیے عطیات جاری کیا گیا چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔[13] مشہور ہسپانوی مؤرخ ریمون میننڈیز بیدل نے لکھا ہے: «اندلس کی خلافت اس زمانے میں اپنے اوج کمال تک پہنچ گئی تھی، پورے اسپین پر پرامن حکومت تھی، عام سکون قائم تھا»۔[14]

حوالہ جات

  1. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/119467992 — اخذ شدہ بتاریخ: 17 جولا‎ئی 2021
  2. ابن الخطيب 1973, p. 479
  3. ^ ا ب عنان 1997, p. 483
  4. ابن الأبار 1985, p. 200
  5. ابن عذاري 1980, p. 233
  6. ابن عذاري 1980, p. 248-249
  7. ابن عذاري 1980, p. 253
  8. ابن عذاري 1980, p. 234
  9. عنان 1997, p. 484
  10. ابن عذاري 1980, p. 250
  11. المقري 1968, p. 565
  12. عنان 1997, p. 488
  13. عنان 1997, p. 507