عمر بن حسن بن علی
عُمَر بن حسن بن علی بن ابی طالب، امام حسن مجتبی (ع) کے فرزند ہیں کہ جو کربلا میں موجود تھے اور واقعہ کربلا کے بعد اسیر ہوئے۔
نام و نسب
[ترمیم]بعض نے ان کا نام عَمْرو لکھا ہے۔[1] بعض انھیں امام حسین علیہ السلام کا بیٹا سمجھتے ہیں [2] لیکن مشہور یہ ہے کہ وہ حضرت امام حسن کے بیٹوں میں سے ہیں اور ان کی ماں ام ولد تھیں۔[3]
کربلا میں حضور
[ترمیم]بعض مورخین کے نزدیک وہ کم سنی میں ہی کربلا میں شہید ہوئے ہیں [4] لیکن بعض ان کی شہادت کو تردید کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔[5]
اکثر مؤرخین ان کی کربلا میں اسیری کے قائل ہیں جیسا کہ مقاتل الطالبیین میں آیا ہے : امام حسین علیہ السلام کے اہل بیت اسیر ہوئے اس میں عمر، زید اور حسن بن علی کے فرزند حسن بھی شامل تھے۔[6]
طبری کے بقول یزید نے کم سن عمر بن حسن کو طلب کیا اور کہا: میرے بیٹے کے ساتھ کشتی کرو گے؟ عمر نے جواب دیا: اس طرح خالی ہاتھ نہیں بلکہ دونوں کے ہاتھوں میں تیز دھار تلوار دو تا کہ باہم جنگ کریں اگر میں مارا جاؤں تو اپنے جد محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ سے ملحق ہو جاؤں اور اگر میں نے اسے قتل کر دیا تو وہ اپنے اجداد معاویہ و ابو سفیان سے ملحق ہو جائے گا۔[7]
اس بات کے پیش نظر دیگر مؤرخین نے انھیں کربلا کے شہیدوں میں سے شمار نہیں کیا لہذا ان کا شہید ہونا بعید نظر آتا ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ابن حبان، الثقات، ج2، ص311.
- ↑ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہمالسلام، ج3، ص259.
- ↑ تاریخ یعقوبی، ج2، ص228.
- ↑ خوارزمی، مقتل الحسین علیہ السلام، ج2، ص48.
- ↑ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہمالسلام، ج3، ص259.
- ↑ ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص119.
- ↑ طبری ، ابوجعفر، تاریخ طبری، ج5، ص462.
منابع
[ترمیم]- ابن حبان محمد، کتاب الثقات، ج1، ص13، بہ کوشش عزیز بیگ و دیگران، حیدرآباد دکن، 1393ق.
- مازندرانی، محمد بن علی؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب. نجف: المکتبہ الحیدریہ، 1376ق.
- يعقوبی، احمد بن اسحاق، ترجمہ محمدابراہیم آیتی، تہران، 1362ش.
- خوارزمی، محمد بن احمد، مقتل الحسین علیہ السلام، قم، انوار الہدی، 1423ق.
- مازندرانی، محمد بن علی؛ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب. نجف: المکتبہ الحیدریہ، 1376ق.
- اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبیین، تحقيق سيد احمد صقر، بيروت، دار المعرفہ، بى تا.
- تاریخ الامم و الملوک، طبری، موسسہ الاعلمی، بیروت، 1403ق.