امسال امن کا نوبیل انعام جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی جاپانی تنظیم نیہون ہیڈانکیو کو دیا گیا ہے۔ اس سے ان ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والی ہولناک تباہی کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے لیے تنظیم کے قابل قدر کام کی عکاسی ہوتی ہے۔
زیر نظر تصویر جاپان کے شہر ہیروشیما میں 6 اگست 1945 کو مقامی وقت کے مطابق 8 بج کر 17 منٹ پر لی گئی جس میں ایٹم بم کا دھماکہ ہونے سے دو منٹ کے بعد زمین سے ایٹمی بادل اٹھتا دکھائی دے رہا ہے۔
ہیروشیما میں ایٹم بم گرائے جانے کے مقام پر موجود عمارت کی باقیات گینباکو ڈوم کے نام سے جانی جاتی ہیں اور اب یہ ہیروشیما امن یادگار کا حصہ ہے۔ جاپانی زبان میں ایٹم بم کو گینباکو کہا جاتا ہے۔
یونیسکو نے 1996 میں اس یادگار کو اپنے عالمی ورثے میں شامل کیا تھا۔
اقوام متحدہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملوں سے فوری بعد اپنی تخلیق کے وقت سے ہی دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کوششیں کرتا آیا ہے۔
جنوری 1946 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کردہ پہلی قرارداد جوہری توانائی کی دریافت سے جنم لینے والے مسائل سے نمٹنے کے لیے کمیشن کے قیام سے متعلق تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ناگاساکی کے ایٹم بم میوزیم میں بچوں کے ساتھ کاغذی بگلے بنائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عالمی رہنماؤں پر ہیباکوشا کی طرح واضح ہونا چاہیے کہ جوہری ہتھیار موت کے آلات ہیں جو کوئی حفاظت، تحفظ اور سلامتی مہیا نہیں کرتے۔ تمام جوہری ہتھیاروں کا بیک وقت خاتمہ ہی انہیں پوری طرح ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔